Description
بھارتی تعذیب خانوںمیں بیتے روح فرسا لمحات کی روداد قلمبند کرنا میرے لئے آسان نہ تھا۔ ہر لمحہ جب بھی میں قلم ہاتھ میں لے کر لکھنے بیٹھتی تو جیل کی تاریک زندگی کے اذیت ناک مناظر کے ہوش ربا نقوش ذہن کے پردے پر تازہ ہوکر مجھے بے چین و بے قرار کر دیتے اور میں سخت ذہنی تناو¿ میں مبتلا ہوجاتی۔ پھر بہت دیر تک اسی حالت میں پڑی رہتی۔ بڑی مشکل سے سنبھل کر پھر لکھنا شروع کر دیتی، مگر لہو لہان یادوں کا ہجوم نمودار ہوتے ہی پھر ذہنی تناو¿ مجھے گھیر لیتا۔ یہ سلسلہ کتاب کی تخلیق کے پورے عمل کے دوران جاری رہا۔
رہائی پانے کے بعد سے میں بے خوابی کی بیماری میں مبتلا ہوں۔ نیند کی دوا کھائے بغیر مجھے نیند نہیں آتی ہے۔ رات رات بھر جاگتی رہتی ہوں۔گھٹن بھرے خواب اب بھی مجھے ستاتے ہیں ۔ خواب میں میں جیل، جیل کی سلاخیں، جیل کا اسٹاف اور جیل کا پرتناو¿ ماحول دیکھتی ہوں۔ ابھی بھی جب شام کے چھ بجتے ہیں تو ایک خوف سا طاری ہو جاتا ہے۔ چھ بجے کے بعد گھر سے باہر نکلنا مجھے عجیب سا لگتا ہے، کیونکہ شام کے چھ بجے جیل کی گنتی بند ہو جاتی تھی اور اس عادت نے میرے ذہن کو مقفل کر دیا ہے۔ اب بظاہر میں آزاد دنیا میں ہوں مگر ابھی بھی بنا ہاتھ پکڑے میں سڑک پر اطمینان سے نہیں چل سکتی ہوں کیونکہ پانچ سال تک پولیس والے میرا ہاتھ پکڑے مجھے تہاڑ جیل سے عدالت اور عدالت سے تہاڑ تک لے جایا کرتے تھے ۔ اس عادت نے میرے ذہن میں وہ نقوش چھوڑے ہیں جن کا مٹنا مشکل ہے۔
— اس کتاب سے ایک اقتباس
Reviews
There are no reviews yet.