Description
اسلام کے متحدہ اور اصل الاصل قالب سے جب تک ہمارے حواس آشنا رہے ہماری حیثیت ایک ایسی بنیان مرصوص کی رہی جس میں بڑی سے بڑی خارجی مداخلت بھی شگاف ڈالنے میں ناکام رہی۔ مسلمان اختلافِ فکر و نظر کے تمام ہنگاموں کے باوجود ایک امت شمار ہوتے۔ یہاں نہ کوئی شیعہ تھا اور نہ کوئی سنّی، نہ کوئی اباضی تھا اور نہ ہی اسمٰعیلی سبھی ایک ہی رسالۂ محمدیؐ کی تحمیل کا دم بھرتے۔ یہ وہ عہد تھا جب ائمہ اربعہ کا ظہور نہیں ہوا تھا اور نہ ہی کسی کے ذہن میں ائمہ سبعہ یا ائمہ اثنا عشر کے ظہور کی بابت کوئی خیال پایا جاتا تھا کہ تب نہ تو شافعی کا الرّسالہ منظر عام پر آیا تھا اور نہ ہی دنیا ابو حنیفہ کی کلامی نکتہ سنجیوں سے واقف تھی۔ نہ تو امام مالک کی مؤطا وجود میں آئی تھی اور نہ ہی شیعہ اور سنّی روایتوں کے الگ الگ مجموعے مرتب ہوئے تھے۔ تب خدا کی کتاب بین المسلمین مکالمہ اور مناقشہ کا آخری حوالہ تھی جس نے امت کو ایک نظری استوانہ پر مجتمع کر رکھا تھا۔
Reviews
There are no reviews yet.